صحت انصاف کارڈ،خیبر پختونخوا کے ہر شہری کے شناختی کارڈ پر تبدیل ہوچکا ہے

پشاور:خیبرپختونخوا حکومت نے پورے صوبے کیلئے ہیلتھ کارڈ کا اعلان کیا تھا جس کا آغاز 31 اکتوبر کو ملاکنڈ ڈویژن کے اضلاع سے ہو چکا ہے اور بعد ازاں اس کا دائرہ کار مرحلہ وار پورے صوبے تک پھیلایا جائے گا۔وزیر اعظم عمران خان نے 20 اگست کو اس اسکیم کا آغاز کیا تھا جس کے تحت ہر خاندان 10 لاکھ روپے تک کا علاج معالجہ کرنے کا اہل ہے اور کارڈ دکھا کر کسی بھی سرکاری یا پرائیویٹ اسپتال سے اپنا علاج کروا سکتا ہے۔ اس کی کٹوتی کارڈ سے ہوگی۔اس سے قبل اس کیلئے ایک مخصوص کارڈ جاری کیا جاتا تھا مگر گزشتہ روز تحریک انصاف کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے واضح کیا گیا کہ اب شہریوں کو صحت سہولت پروگرام کے لیے رجسٹریشن یا کارڈ حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ صحت انشورنس اسکیم سے فائدہ اٹھانے کے لئے اصل شناختی کارڈ ہونا لازمی ہے۔وضاحت میں کہا گیا ہے کہ خیبرپختونخوا کا شناختی کارڈ رکھنے والوں کا صحت سہولت پروگرام میں خود بخود اندراج کرایا جائے گا اور اس کے ساتھ ہی شناختی کارڈ صحت کارڈ پلس بن جائے گا۔ پہلے مرحلے کے تحت دیربالا، دیر پائیں، مالاکنڈ، سوات، شانگلہ، اپر چترال اور لوئرچترال میں منصوبہ شروع ہو چکا ہے۔ دوسرے مرحلے میں اس کا دائرہ کار ایبٹ آباد، مانسہرہ، بٹگرام، تورغر اور کوہستان تک بڑھایا جائے گا۔تیسرے مرحلے میں ہری پور، صوابی، مردان، بونیر، نوشہرہ، چارسدہ اور پشاور تک بڑھایا جائے گا جبکہ چوتھے مرحلے کے تحت اس پروگرام کو یکم جنوری 2021 تک کوہاٹ، ہنگو، کرک، بنوں، لکی مروت، ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک تک پھیلایا جائے گا۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس پروگرام کے تحت 10 لاکھ روپے کا علاج ایک فرد کے لیے نہیں بلکہ ایک خاندان کے لیے ہے۔ خاندان میں جتنے بھی افراد ہوں، وہ 10 لاکھ تک کا ہی مفت علاج کروا سکتے ہیں۔ اس کے بعد ان کو ادائیگی کرنا ہوگی۔اس میں دیگر ٹیکنیکل چیزیں بھی تاحال واضح نہیں۔ مثال کے طور پر اگر شناختی کارڈ کو ہی صحت کارڈ کے طور پر استعمال کیا جائے گا تو پھر خاندان محض شوہر، بیوی اور ان کے بچوں پر محیط نہیں ہوگا بلکہ جوائنٹ فیملی سسٹم میں تین نسلیں ایک خاندان میں شمار ہوں گی۔مثال کے طور پر آپ شادی شدہ ہیں اور آپ کے اپنے بچے بھی ہیں جبکہ آپ کے والدین بھی حیات ہیں۔ آپ کے والد کے دیگر بہن بھائی ہیں۔ ان سب کے شناختی کارڈ پر اگر خاندان نمبر یکساں ہو تو یہ سب ایک ہی خاندان میں شمار ہوں گے۔ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ اکثر لوگ شناختی کارڈ بناتے وقت شادی شدہ نہیں ہوتے اور وہ فارم میں غیرشادی شدہ لکھ دیتے ہیں۔ اس لیے ان کے کارڈ پر والد کا خاندان نمبر درج کردیا جاتا ہے اور پھر لاکھوں لوگ شادی کے بعد بھی شناختی کارڈ میں خاندان نمبر تبدیل کرنے کی زخمت نہیں کرتے۔ اسی طرح ایک ہی خاندان نمبر کئی نسلوں تک چلتا رہتا ہے۔اس مسئلے کو حل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ نادرا کے دفتر جائیں اور نیا فارم بھر کر اپنا خاندان نمبر تبدیل کروا دیں۔