میرے لہو سے لکھنا پاکستان


تحریر:علی آفریدی …..
پاکستان، ایک ایسی ریاست جو روزِ اول سے اپنے مخالف حریفوں کی سازشوں کا شکار رہی ہے۔ جس قوم کے دو قومی نظریے اور ریاست کی بنیاد کو حریفوں کی تنقیدوں کا سامنا رہا ہو، اُس کی دفاع کا ذمہ حقیقی طور پر ایک اہم اور مشکل ترین کام ہے۔ ایسے میں ملک کی عسکری قیادت اپنے دفاع کے بہتر طریقے سے انجام دہی کے لیے ایک حکمتِ عملی کو تشکیل دیتی ہے۔ بیشتر عسکری صورتحال سے نمٹنے کے لیے فوج میں دفاع کی اِس حکمتِ عملی کو انٹر سروسز انٹیلی جنس کا نام دیا گیا، جسے ہم ، آپ آئی-ایس-آئی کے نام سے جانتے ہیں۔پاک فوج کا نام سن کر اُٹھنے والا ہر جذبہ ، قائم ہونے والے امن کی کاوشوں سے بے خبر ہوتا ہے۔ لفظی کہانیوں سے نکل کر حقیقیت کے کواڑ سے جب تلخ سچائیوں اور قربانیوں کی سرد اور گمنام ہواؤں کے جھونکے جب عوام کی آنکھیں کھولتے ہیں تو تب تک سراہنے لائیک ہر ایک مجاہد ہماری زندگیوں کو ایک اور احسان تلے دبا کر امر ہو جاتا ہے۔ یہاں بات ہو رہی ہر ایک ایسے سپاہی کی، جو آپ، ہم میں سے ہی چنے گئے وہ عام و سادہ صفت لوگ ہوتے ہیں جن کے مقاصد اورعزائم سے جُڑی ملک و قوم کا تحفظ ہے۔وہ جو ہم میں رہ کر، ہم سے الگ ہوتے ہیں،اپنی اصل شناخت کے درمیان ایک الگ شناخت میں زندگی بسر کرنے والے وہ رکھوالے جو اپنا گھر، رشتے، زندگی سب اِس ملک و قوم کے تحفط کے لیے قربان کر آتے ہیں۔یہ وہ آئی-ایس-آئی کے مجاہدین ہیں،جن کا مقصد صرف اور صرف اُن دشمن عناصر کو پکڑنا ہوتا ہے جو عوام کے درمیان رہ کر اُنہیں نفسیاتی جنگ کا شکار بنا رہیں ہیں، اور ملک ، ملت اور قوم میں حکومت و افواجِ پاکستان کے خلاف بغاوت پہ اُکسا رہےہیں۔ملک و قوم کے تحفظ کے لیے جان قربان کرنے والے واقعات سے بھری پڑی زندگی میں جب ایک کڑوا سچ سامنے آتا ہے تو حوصلے کم پڑ جاتے ہیں، جب اپنے ہی گلشنِ چمن میں کانٹے اُگنے لگیں تو تکلیف ہوتی ہے، ایسا ہی کچھ ہوا جب دشمن کی سازشوں کا شکار ہو کر ایک گروہ اپنے ہی محا فظو ں کی مخالفت پہ اُمڈ آیا، انتشار کا ایک سیلاب جو عوام کو ایک بغاوت پہ اُکسا رہا تھا۔ غلامی کی وہ زنجیریں جو سترّ سال پہلے توڑی گئیں تھیں ایک غلامانہ سوچ کا شکار ہو رہی تھی۔ ایک حقیقی جدوجہد اور اپنی بقا کے حصول کی کاوشوں سے ناآشنا یہ عوام دشمن کی اُنہی چالوں کا شکار ہو رہی تھی جس کی دشمن کو چاہ ہے۔ آئی-ایس-آئی کے مجاہدین جو بھیس بدل بدل کر کبھی جاسوس، مخبر یا پھر ایک عام دوست کی صورت میں ایک عام انسان کی حیثیت سے دشمن کو جاری آپریشنز اور سرگرمیوں کا سراغ نکال کر انہیں انجام تک پہنچاتی ہے۔آرام دہ زندگی چھوڑ کر ایک سخت اور خطرناک ترین زندگی کو ترجیح دینا، افسانی کتابوں کی حد تک ایک خیالی دنیا کا جانباز اور مہم کاریاں سا لگتا ہے۔ اپنا گھر والدین، بہن بھائی، دوست سب بھول کر ایک گمنام زندگی جینا ایک فلمی انداز سا گمان دیتا ہے۔ ملک کے لیے ہر خطرہ مول لے کے کئی جانوں کا محافظ کہلانا تصوراتی کہانیوں سی جھلک دیتا ہے۔ پر موت کو اپنے سامنے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر خوشامدید کہنے کے لیے جنونی ہونا پڑتا ہے۔ سر پہ کفن باندھ کر زندگی جینے کے لیے خواہشوں کو دفنانا پڑتا ہے، جان، مال،عزت، رشتے، ارمانوں کا قبرستان تیار کرنا پڑتا ہے۔ تب جا کر ایک مجاہد کی تخلیق کا عمل پورا ہوتا ہے۔ پر کون جانتا ہے کہ امتحان کی وہ گھڑیاں جب اپنے ہی ساتھی کو اپنی آنکھوں کے سامنے گرتا دیکھیں، جب اپنے گھر کا محافظ اپنے گھر جانے کو ترسے، جب موسم کی تلخیاں تنگ کریں تو گھر کا گماں کر کے کھلے آسماں تلے بھی سو جائیں،جب گھر کی یاد آے تو بے گھروں اور لاچاروں کا سہارا بنیں، جب فرض پکارے تو لبیک کہہ کرسب کچھ چھوڑ کر اپنے عہدکی تکمیل کو پہنچیں۔ کون ہیں یہ لوگ؟ کہاں سے لاتے ہیں یہ حوصلہ؟ کیوں یہ دیوانہ وار اپنی زندگیوں سے کھیل کر ہمیں بچا رہے ہیں؟ یہ اُن ماؤں کے لختِ جگر ہیں جنہوں نے اپنے نظریاتی عقیدے کے مان کے لیے اپنا سب کچھ لُٹا دیا۔ جنہوں نے وفا کے عہدو پیمان کے فرائض نبھائے، جنہوں نے وطن سے محبت میں جگر کے ٹکڑوں کا نذرانہ فخر سے پیش کیا۔ جنہوں نے عشق کی منزلِ وحدت کو دل و جان سے قبول کیا، اور اپنے ظاہر و باطن کو اپنی پاک سر زمیں کے نام وقف کر چھوڑا ہے۔جنہیں قومی پرچم میں لپٹ کر شہید ہونے سے غرض نہیں ہے، جنہیں فکر ہے تو صرف اس ملت کی سلامتی کی۔ جنہیں لالچ ہے اس قوم کے لیے قائم امن کی، جنہیں جستجو ہے وطن کی پاسبانی کی۔جنہیں ضرورت ہے اپنوں کے ساتھ کی، جنہیں انتظار ہے اُس محبت کے اظہار کی جو دشمنانِ ملک و ملت کی سازشوں کا شکار ہو رہی ہیں۔جن کے لیے قوم کی جانب سے ایک اظہارِ تشکر، ایک بول حو صلہ افزائی کا ، ان کے حوصلوں کو بڑھانے میں مدد دہتے ہیں، ان کے احساسات کو تحفظ میسّر ہوتا ہے کے جن کے لیے وہ اپنا سب کچھ قربان کر رہے ہیں ایک انجان گمنام حیثیت سے، ان کے پیچھے ساتھ دینے ایک قوم کھڑی ہے۔یہ وہ گمنام محافظ، جن کے ایمان کی طاقت سے لرزتا دشمن کبھی سامنے سے وار نہ کر پائے۔ ایسے میں اُوچھے ہتھکنڈوں میں عوام کو ورغلا کر افواج کے مخالف کھڑا ہونا کمزور ترین چال ہے۔ پاکستان کی عوام کل بھی اپنے محافظوں کی قربانیوں کو سلام پیش کرتی تھی اور یہ آج بھی یکجہتی کے ساتھ اپنی افواج کے ساتھ کھڑی ہے۔دہشتگردی، تخریبکاری، اور آج کے دور کی جاری ہائبرڈ وار کے اس مشکل دور میں عوام کا حوصلہ، اِن کا ساتھ ان تمام گمنام سپاہیوں میں نئی روح پھونک دینے کا کام کرتا ہے۔ آج کا یہ دور ہم پاکستانیوں سے اِس ملک و افواجِ پاکستان سے وفاداری کے عہد کا تقاضا کر رہا ہے۔ یہ دور ہمیں تنبیہ کر رہا ہے انتشار اور بدگمانیوں کی دلدل سے بچنے کی، زمانہ گواہ ہے عراق، لیبیا اور فلسطین جیسے ممالک کا، جن کے محافظوں کے خلاف اُنہی کی عوام کو بدگمان کر کے ملک و ملت کو تباہ کر دیا گیا۔ ہمیں اِس سخت دور میں اپنی فوج کا وہ حوصلہ بننا ہے کہ جسےاپنے لہو کی شناخت کے لیے موت سے ٹکرانا پڑے تو موت کو مات دے دیں۔اپنی اُن مجاہدین کے لیے وہ ہمت کا سہارہ بنیں جو اُن کے جذبوں اور حوصلوں کیلیے نئی زندگی بنے۔کہ یہ وہ بیت بن کر اُبھریں جس کی مراد اقبال کے کلام میں ہے۔یہ وہ قلندرانہ طبیعت کے سپاہی کہ جن کی فقیری میں قوموں کی شاہانیت ہے اور جن کی غلامی میں قوموں کا زوال۔آج زمانہ پکار رہا ہے وہی جذبہء یکجہتی کہ جس سے پیدا ہو سکے وہ افواج کی طاقت کہ جن کے حوصلوں میں ضبط ہو آسمانی،جن کےکردار کے ہتھیار میں ہو جھلک جانباز خالد رضي الله عنہ کی اور للکار میں لرزہ حیدری رضي الله عنہ ، تو دشمن کا خاتمہ یقینی امر ہو جاتا ہے۔