اقوام متحدہ کے بننے سے اب تک ایک ناکام ترین عالمی ادارہ

تحریر:گوہر رحمان ۔۔۔
جنگ عظیم ایک اور دوئم میں کرڑوں جانیں جانے کے بعد دنیا نے سوچا کہ ایک ایسا ادارہ بنایا جائے جو اس قسم کی جنگوں کو روک سکے اور دنیا میں امن قائم کرے۔ 25 اپریل، 1945ء سے 26 جون، 1945ء تک سان فرانسسکو، امریکا میں پچاس ملکوں کے نمائندوں کی ایک کانفرس منعقد ہوئی اس کانفرس میں ایک بین الاقوامی ادارے کے قیام پر غور کیا گیا۔ چنانچہ اقوام متحدہ کا منشور یا چارٹر مرتب کیا گیا۔ لیکن اقوام متحدہ 24 اکتوبر، 1945ء میں معرض وجود میں آئی۔لیکن اقوام متحدہ کے قیام سے لیکر اب تک نصف صدی گزر چکی ہے مگر اب لگتا ہے کہ یہ ادراہ صرف چند ممالک کے مفادات کے لئے بنایا گیا ہے جہاں یہ چند بڑے ممالک دیگر کمزور ممالک کو زیر کرنے میں مصروف عمل رہتے ہیں۔ 1945 سے لیکر اب تک اگر دیکھا جائے تو یہ ادارہ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے کیونکہ امریکا نے جس بھی ملک پر چڑھائی کی ہے جن میں ویتنام۔ عراق، افغانستان اور دیگر ممالک، تو امریکا کی اس چڑہائی کو قانونی جواز فراہم کرنے میں اقوام متحدہ کا کردار رہا ہے۔اس کی ناکامی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ پانچ ممالک ویٹو پاور کے زریعے پوری دنیا پر اپنی پسند نا پسند تھونپ دیتے ہیں۔ اور اس ویٹو ممالک میں ابھی تک ایک اسلامی ملک نہیں ہے جس سے وہ مسلم ممالک کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ اور اسلئے کوئی بھی اپنی طاقت میں مغمور ملک کسی بھی مسلمان ملک پر چڑہائی میں دریغ نہیں کرتا۔ لیکن اس سے بھی بڑی ناکامی جو اب تک اقوام متحدہ کے سر ہے وہ یہ ہے کہ یہ ادارہ آج تک مسلمان ممالک اور ان پر ظلم و ستم کے خلاف صرف زبانی جمع خرچ سے کام لیتا آرہا ہے۔ جب کے غیر اسلامی ممالک کے لئے یہ عملی اقدامات اٹھاتا ہے۔ اس کی مثال جو زندہ جاوید ہے وہ ریاست مشرقی تیموراور جنوبی سودان کی ہے جس کو انڈونیشیا سے 2002 میں آزاد کروانے میں اقوام متحدہ نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا مگر اس کی اوقات کشمیر،ا اور فلسطین پر مکمل ٹھوس ہو جاتی ہے جو کہ اقوام متحدہ می نصف صدی سے حل تلب ہے لیکن اقوام متحدہ کوئی بھی عملی کام کرنے کے بجائے صرف زبانی جمع خرچ کرتا ہے۔چونکہ اسرائیل کے قیام میں امریکا برطانیہ جیسے ملک پیش پیش تھے لہٰذا اقوام متحدہ یہودیوں کو آباد ہوتے اور فلسطینیوں کو برباد ہوتے دیکھتی رہی۔ کل تک یہودی بے وطن تھے آج فلسطینیوں کو بے وطن کر دیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ اسرائیل نے عرب ملکوں سے جنگ میں عربوں کے بڑے علاقوں پر قبضہ کرلیا ہے جس میں جولان کے پہاڑی علاقے شامل ہیں یہی نہیں بلکہ اسرائیل جب چاہتا ہے فلسطینیوں کا قتل عام کرتا ہے ۔اس ظلم کے خلاف جب اقوام متحدہ میں فریاد کی جاتی ہے تو امریکا اس قسم کی قراردادوں کو ویٹو کردیتا ہے۔ اورہندوستان کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے خلاف اقوام متحدہ نے ایک لفظ تک نہ بولا۔ اسلئے یہ کہنا درست ہو گا کہ اقوام متحدہ ایک ناکام، کمزور اور مجبور ادارہ ہے جو کہ صرف و صرف چند ممالک کے تابع ہے ۔اسی وجہ سے اب دنیا کے کمزور ممالک کی جانب سے اقوام متحدہ کے متبادل یہ نیو بلکس کی افواہیں بھی جنم لے رہی ہیں اور جلد یہ بدیر اس طرح کا کوئی منصوبہ سامنے بھی اسکتا ہے۔ اور یہ ایک اچھا اقدام ہوگا ان ممالک کے لئے جو ایک ناکام ترین اور چند ممالک کے ہاتھوں مجبور اقوام متحدہ میں ہوکر بھی اپنے ملک اور عوام کو تحفظ نہیں دے پاتے ۔ جس میں وہ اپنے ملک کے حقوق اور عوام کا تحفظ کر پائیں گے۔