بلوچستان میں جاری ففتھ جنریشن وار فیئر اور حکومت بلوچستان کی ذمہ داریاں

تحریر : انجنیئر سعد کلیم ۔۔۔
بلوچستان کو اس کی اسٹریٹجک لوکیشن کی وجہ سےبہت اہمیت حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں دشمن ملکوں نے بلوچستان کے امن کو سبوتاژ کرنا چاہا ہے اور جس کو الحمداللہ ہر دور میں افواج پاکستان نے اپنی لازوال قربانیوں سے ناکام بنایا ہےآج دشمنان وطن نے پاکستان کے خلاف ایک نئی جنگ کا آغاز کیا ہے جیسے ففتھ جنریشن وار کہا جاتا ہے جس میں حالات و واقعات کو اپنے مذموم مقاصد کےلیےاستعمال کیا جاتا ہے جس کی سب سےبڑی مثال بلوچستان میں ہونے والے حالیہ چندواقعات ہیں جس کو ایک مخصوص مافیا جس میں ماما قدیر اختر مینگل اور ان کے چیلے ماہ رانگ بلوچ جیسے لوگ اپنی سیاست اور اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں چاہے وہ برامش کا واقعہ ہو یا پھر انٹرنیٹ کی سہولیات نہ ہونے کے خلاف طالب علموں کااحتجاج ہو ایک لڑکی جس کا نام ماه رانگ بلوچ ہے جو کہ ریاست کے خرچے پے چلنے والی یونیورسٹی سے ایم بی بی ایس کر رہی ہے جس کا عام شہری خرچہ برداشت کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا جس کا خرچہ کم از کم پچاس لاکھ ہے جو کے ریاست پاکستان برداشت کر رہی ہے مگر بے حسی اور خودغرضی کا عالَم یہ ہے کے اسی ریاست کے خلاف یہ محترمہ سوشل میڈیا پے زہر اگلتی رہتی ہیں۔
جب برامش کا واقعہ ہوا اس پے ہر پاکستانی اور فرزندبلوچستان کی طرح میرا بھی دل دکھا میں بھی افسردہ تھا اور لوگوں نے بھی احتجاج کیا لیکن کسی بھی شہری نےاحتجاج میں ریاست کے خلاف نہ بات کی اور نہ پوسٹر اٹھایا مگر ان محترمہ نے احتجاج کی تصویروں کو اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کے ذریعے اپنے ایجنڈے اور مذموم مقاصد کے لئے خود سے اس احتجاج کو ریاست کے خلاف استعمال کیا اور ایک الگ ہی رنگ دینا چاہا اور اس معصوم بچی برامش کے ساتھ ہونے والے حولناک واقعے کو اپنی بدبودار سیاست کا نشانہ بنایا اور بلوچستان دشمنی کا ثبوت دیا.
اسی طرح حالیہ طالب علموں کے احتجاج کے واقعے کو بھی ایک الگ رنگ دیا گیا اور پولیس کو قصور وار ٹھراکے ریاست کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کی ناکام کوشش کی گئی جبکہ پولیس صرف اپنا فرض نبھا رہی ہے ہم سب جانتے ہیں کہ بلوچستان بھر میں دفعہ 144 نافذ ہےجوکہ بلوچستان میں کورونا وائرس کی وبا سے بچاؤ کیلئے بلوچستان کی عوام کے بہترین مفاد میں نافذ کیا گیا ہے. لیکن ویڈیوز میں صاف دیکھا جا سکتا ہے ان محترمہ کی جانب سے بلوچستان حکومت اور پولیس ایس ایچ او کے خلاف نعرے لگائے گئے اور پولیس کو اشتعال دلایا گیا جس کے نتیجے میں پھر خاتون پولیس کانسٹیبل نے خواتین طلبہ کو گرفتار کیا جس کو ماہ رانگ اور اس کی ساتھیوں نے بھرپور استعمال کیا اور بلوچستان حکومت کے ساتھ ساتھ ریاست پاکستان کے خلاف بھی نعرہ لگا دیا. مگر بلوچستان حکومت نے ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے الٹا پولیس کے خلاف کارروائی کی جو کہ ایسے شرپسند عناصر کی حوصلہ افزائی ہے۔
آج ان سے بلوچستان کا ہر باشعور طالب علم یہ سوال کر رہا ہے جو انٹرنیٹ کی بحالی کیلئے ریاست پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے ہیں وہ لوگ ان شرپسند عناصر کے خلاف آواز کیوں نہیں بلند کرتے ہیں جو آئے روز بلوچستان میں کہیں نہ کہیں دھشتگرد کارروائیوں میں انٹرنیٹ کے ٹاورز کو تباھ کرتے ہیں اور سوشل میڈیا اور اپنی ویبسائٹس پر بڑے فخر سے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں جبکہ الٹا یہی مافیا اور ان کی سرغنہ ماہ رنگ بلوچ انہی دھشتگردوں کے حمایتی ماما قدیر کے ساتھ بڑے فخر سے تصاویر کھنچواتے ہیں.
یہیں پر ایک سوال جنم لیتا ہے اگر اندرون بلوچستان میں انٹرنیٹ میسر نہیں تو پھر سوشل میڈیا پر وہ اکاؤنٹ جو پاکستان کے خلاف دن رات پروپیگنڈہ کرتے ہیں تو کیا وہ بھارت سے چل رہے ہیں؟؟؟؟
سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر ماما قدیر جیسے ان پڑھ لوگ آن لائن کلاسز کا بہانا بنا کر انٹرنیٹ کی بحالی پر اتنا زور کیوں دے رہے ہیں کیا کہیں اس لئے تو نہیں کہ ففتھ جنریشن وار فیئر کے دور میں جہاں آج یہ مافیا بھارت سے جعلی اکاؤنٹس چلوا رہا ہے کل کو یہی لوگ واٹسپ گروپس بنا کر جھوٹی خبریں پھیلا کر ریاست پاکستان کے خلاف ایک نیا محاذ کھڑا کر سکیں..!
یہاں یہ معاملہ بھی غور طلب ہے جو لڑکی ہر رنگ میں بھنگ ڈالتی آ رہی ہے ہر معاملے کو ریاست کے خلاف استعمال کرتی ہے ماما قدیر کے کیمپس میں ان کے ساتھ موجود ہوتی ہے اس کے باوجود وزیراعلی بلوچستان اسی لڑکی ماه رانگ بلوچ کو مذاکرات کے لئے بلاتے ہیں آخر کیوں؟؟؟ ہونا تو یہ چائیے تھا کہ وزیراعلی ان طلبہ کو بلاتے جن کے حقیقت میں مسائل ہیں ماہ رانگ جو کہ سٹوڈنٹ لیڈر بن کے وزیراعلی صاحب کے پاس گئی وہ تو ہر وقت سوشل میڈیا پے ریاست کے خلاف بات کرتی نظر آتی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کے ان کو تو انٹرنیٹ کے استعمال میں کوئی مسئلہ درپیش ہی نہیں ہے اور حالیہ وزیراعلی بلوچستان سے ہونے والی ملاقات کا محترمہ کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ میں کوئی تذکرہ بھی نہیں اور ہوگا بھی کیوں کیونکہ ان کا مقصد صرف نفرت پھیلانا ہے اور دنیا کو بلوچستان کی ایک منفی تصویر پیش کرنا ہے لگتا ہے پوری جام حکومت اس مخصوص مافیا کے آگے کمزور پڑ گئی ہے جس کی دو وجوحات ہو سکتی ہیں یا تو ان کو اپنی حکومت بہت زیادہ پیاری ہے یا تو ان کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں بلوچستان کی دشمن قوتیں ان واقعات کو ففتھ جنریشن وار فیئر کے طور پر استعمال کر رہی ہیں ان کے آگے جھکنا حل نہیں بلکہ یک زبان ہو کے ان کے مذموم مقاصد کو ناکام بنانا ہوگا اور اس میں ہر کسی کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا بشمول وزیراعلیٰ بلوچستان ان کے وزراء اور مشیروں کو بھی کوئی ایسا موقع فراہم ہرگز نہیں کرنا ہوگا جس کو یہ اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کر سکیں اور اس کے ساتھ ساتھ عوام میں بھی یہ شعور اجاگر کرنا ہوگا کہ یہی وہ مافیا ہے جو بلوچستان کا ہمدرد نہیں بلکہ سب سے بڑا دشمن ہے مگر یہ سب ایسے عناصر کے خلاف ڈٹ جانے سے ممکن ہے نہ کے ان کو اپنے سامنے بٹھاکے چائے پلانے سےففتھ جنریشن وار شعور اور آگاہی سے لڑی جاتی ہے ذمہ داری سے منہ موڑ لینے اور آنکھیں چرانے سے نہیں وزیراعلی صاحب یہ چائے اور اپنا وقت ایسے نوجوانوں کے لئے وقف کریں جو کے آپ کی حکومت کے لئے تو خطرہ نہیں لیکن ایسے ملک دشمن عناصر کے لئے خطرہ ضرور ہیں