ڈھونگی ماما، نیا ڈرامہ

تحریر : شیرباز بلوچ ۔۔۔
بلوچستان میں مسنگ پرسن کے نام سے ناچنے والے ماما قدیر جس کا اصل نام قدیر ریکی ہے ۔ یہ یو بی ایل UBL بینک میں بحیثیت کیشئر 2009 میں بینک کے ساتھ فراڈ کرتے ہوئے پکڑا گیا ۔ جرم ثابت ہوا تو یو بی ایل بینک نے اسے فارغ کیا. ماما قدیر کے شروع سے دہشت گرد ملک دشمن تنظیموں کے ساتھ رابطے تھے جب کہ اس کا بیٹا جلیل ریکی اپنے باپ کا بھی باپ نکلا اور بدنام زمانہ دہشت گرد کالعدم تنظیم بی ایل اے کا کمانڈر بنا۔ ڈھونگی ماما قدیر انڈیا را کے رابطے میں تھا اور انڈیا نے مسنگ پرسن کے نام سے تحریک چلانے کے لئے اسے بھاری فنڈنگ کی. اس فنڈنگ کے لئے بھارت کے اندر ایک مکمل سیل قائم کیا گیا تاکہ اس مسئلے پہ واویلا کیا جائے. اس سیل کے ساتھ ماما قدیر کا معاہدہ ہو چکا کہ ہم بلوچستان سے بلوچ نوجوان دیں گے اور تم ٹریننگ دے کر چلتا پھرتا بارود بناؤ تاکہ میں انہی لوگوں کو مسنگ پرسنز کی لسٹ میں شامل کر کے دنیا بھر میں پاکستان، پاک فوج، سیکورٹی اداروں اور حساس اداروں کو بدنام کر کے پاکستان کی عزت اچھالوں۔ مسنگ پرسنز کے نام پر بلوچ ماؤں، بہنوں اور معصوم بچوں کے ہاتھوں میں پلے کارڑ تھمانے کے لئے مجبور کرنا اور ان کی فیملی کو دھمکیاں دے کر سڑکوں پر لے کر آنا ماما قدیر کی گیم کا حصہ ہے. یہ ایک تیر سے کئی نشانے لیتا ہے۔انڈیا کے اس مامے کا ہیرو بنا کر مسنگ پرسنز کو پیش کرنا بین الاقوامی سازش ہے. یہ ویسا معاملہ نہیں جو ماما قدیر کے زریعے آپ اور عوام کو جیو جیسے غدار چینلوں کے زریعے بتایا جاتا ہے. یہ شخص بلوچستان میں مسنگ پرسنز کا معاملہ بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔ یہ بدبخت بلوچستان میں مسنگ پرسنز کو اداروں کے کھاتے میں ڈال کر بلوچوں کو اکساتا ہے.بند کرو یہ مسنگ پرسنز کے نام سے مجمع لگا کر بلوچوں سے محبت کا چورن بیچنا ۔اس تحریر کو زیادہ سے زیادہ شئیر کر کے بلوچستان کے مسنگ پرسنز کے ٹھیکیداروں تک پہنچا دیں تاکہ وہ اس ڈھونگ کی اصلیت سمجھ سکیں۔ اس مفاد پرست کے کرتوت جان کر بچے کسی کو ماما کہنے کی جرأت نہیں کریں گے. جو شخص اپنے وطن کی ماؤں کی گود اجاڑتا ہو وہ بھیڑیا تو ہو سکتا ہے، ماما نہیں۔ اللہ کی پناہ. کیا کوئی پاکستانی بھارت سے مدد مانگنے کا سوچ بھی سکتا ہے؟ اس کی اصلیت جاننے کے لیے تو یہی نکتہ کافی ہے. اس کے چاہنے والے کیا یہ بھی نہیں سمجھتے کہ اسے نوکری سے کیوں نکالا گیا؟ کس جرم کی بنیاد پر؟ اپنے روزگار سے غداری کرنے والا، اپنی قوم کا وفادار کیسے ہو سکتا ہے؟ اب شاید یہ بھی کہتا پھرتا ہوگا کہ “مجھے کیوں نکالا؟”.