پاکستان کا گلابی نمک اور بیرونی قرضے

تحریر: دانیال احمد محسن ۔۔۔۔
اللہ تعالی نے پاکستان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے ان میں بہت سی نعمتیں ایسی ہیں۔ جو دنیا کے کسی دوسرے خطے میں نہیں اور یہی وجہ ہے کہ گورے دنیا کے اس خطے کو “سونے کی چڑیا ” سے تشبیہ دیتے تھے ، اور چڑیا بھی ایسی جو روز انڈے دے اور موت اس کے نزدیک سے بھی نہ گزرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ نعمتیں اس قدر زیادہ ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ تقسیم ہند کے بعد یہ خطہ دو ممالک انڈیا اور پاکستان کی صورت میں معرض وجود میں آیا ۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد ان تمام نعمتوں اور خزانوں میں زیادہ تر ہمارے پیارے ملک کے حصہ میں آئیں۔ فصلوں اجناس سے لیکر معدنیات تک تمام اشیاء کے خزانے اس قدر زیادہ ہیں کہ یہ ہمارے ملک کے ضروریات سے کہیں زیادہ ہیں ۔ پاکستان میں زیادہ تر چیزوں کے ذخائر اور پیداوار گندم ، چاول ، کپاس ، چینی ، گنا ، کینو ، آم ، کوئلہ ، قدرتی گیس ماربل نمک تانبا وغیرہ اور اس جیسی بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کے ذخائر پاکستان میں باقی دنیا سے موازنہ کرکے یا تو پہلے نمبر پر ہیں یا دوسرے اور تیسرے نمبر پر ، بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ان میں سے کوئی بھی چیز دسویں نمبر سے کم نہیں ، لیکن پھر بھی ہمارے ملک اور عوام کے حالات قابل رحم ہیں ، کہ قرضوں کے بغیر ہمارا گزارا ممکن نہیں ان معدنیات اور ذخائر میں ایک چیز پاکستان کی ” گلابی نمک ” بھی ہے۔ چند روز قبل اخبار میں ایک رپورٹ پر نظر پڑی خبر پڑھ کر بہت زیادہ حیرت ہوئی افسوس بھی ہوا اور افسردہ بھی ۔ خبر ایسی تھی کہ دل اور دماغ ماننے کو تیار نہیں کبھی سوچتا ہوں میری نظر نے دھوکا کھایا ہوگا اور کبھی سوچتا ہوں رپورٹر سے غلطی ہوئی ہوگی اور کبھی سوچتا ہوں شاید یہ پرنٹنگ کی غلطی ہے۔ بہرحال جو بھی ہے خبر کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ ” پاکستان پر بیرونی قرضوں کا حجم تقریبا 43 ہزار ارب روپے ہے اور پاکستان کا گلابی نمک انڈیا پاکستان سے کوڑیوں کے داموں خرید کر اپنے ملک لے جاتا ہے اور وہاں سے بیرونی ممالک کو ایکسپورٹ کرکے تقریبا 129 ارب ڈالر سالانہ کماتا ہے ” اب ایسی بات میں ماننے کو تیار ہوں اور نہ ہی یہ میرے اس چھوٹی سی ذہن میں سما سکتی ہے۔ دن رات یہی سوچتا ہوں کہ یہ کیسی بات ہے اور اس میں کتنی حقیقت ہے اگر یہ بات سچ ہے تو کیا یہ بات حکمرانوں کے علم میں نہیں ؟ اور اکیلے حکمران بھی تو اس ملک کے ذمہ دار نہیں اور بھی بہت سے اعلی عہدوں پر بہت قابل اور ذہین لوگ بیٹھے ہوئے ہیں تو کیا یہ سب اس سے بے خبر ہیں ؟ یا یہ کام بہت مشکل ہے کہ انڈیا والے کر سکتے ہیں اور ہم نہیں ؟ فرض کرلیں گے کہ 2018 تک جتنے بھی حکمران تھے ان سب کو ملک کی نہیں صرف اپنی ہی فکر تھی اپنے کاروبار اور اپنے اہل وعیال کی فکر تھی اب تو نیا پاکستان ہے اب تو ایسا نہیں ہونا چاہیے اگست 2018 سے حساب لگا کر دیکھ لیں نئے پاکستان کو بھی تو 22 مہینہ ہوچکے ہیں بلند و بالا دعوے بھی ہو رہے ہیں ایک ملک کے لیے ایک سٹیٹ کے لیے یہ کونسا مشکل کام ہے اگر گھنٹوں کا نہیں اور دنوں کا بھی نہیں تو ایک مہینے میں تو یہ ممکن ہے صرف نمک کو نکالنا ہے اور اس کو ایک پراسیس سے گزار کر پیک کرنا ہے اور ایکسپورٹ کرکے زرمبادلہ کمانا ہے ، چونکہ یہ ایک فرد واحد کا معاملہ ہے نہ ایک کمپنی کا بلکہ یہ تو پورے ملک کا معاملہ ہے اور پورے ملک میں ہزاروں نہیں لاکھوں بلکہ کروڑوں قابل اور بہترین لوگ موجود ہیں۔ اس کے علاوہ لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی باہر بھی موجود ہیں حکومتی سطح پر انفرادی اور اجتماعی سطح پر پاکستان کی گلابی نمک کی لابنگ کی ضرورت ہے، اس کی مارکیٹنگ کرکے ملک کے قرضوں کی خلاصی سمیت بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔ اگر یہ مندرجہ بالا رپورٹس درست ہے تو پھر تو میرے خیال سے پاکستانی صرف اس نمک کے لئے بہترین مارکیٹ تلاش کریں اور صرف اسی کو ایکسپورٹ کریں اور باقی پورا ملک آرام سے بیٹھ جائیں صرف کھائے پئے اور مزے کریں کیونکہ جب پاکستان قرض کے لئے آئی ایم ایف کی منت سماجت کرتا ہے ۔ پاکستان پھر دبئی ملایشیا اور واشنگٹن میں آئی ایم ایف کے ساتھ میٹنگ کرتا ہے پھر جا کے کہیں اس کے بعد آئی ایم ایف بھاری سود اور بھاری شرائط کے ساتھ پاکستان کو قرض دیتا ہے اور اس قرض کے ساتھ بھی بقول حکمرانوں کے معیشت میں استحکام آتا ہے تو کیا اچھا نہیں کہ صرف تھوڑی سی محنت سے ایک سال میں 129 ارب ڈالر صرف نمک سے کمایا جائے باقی معدنیات اور زرعی اجناس آیندہ نسلوں کیلئے چھوڑا جائے ایک ملک کے لیے اپنا ایکسپورٹ بڑھانا بلکہ کوئی بھی کام کرنا مشکل نہیں۔ ایک اور اہم مسئلے اور معدن کی طرف آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں پی ٹی آئی کی پچھلی صوبائی حکومت میں ایک بات میڈیا میں بھی پڑھتا اور سنتا تھا اور لوگوں سے بھی سنتا تھا ۔ آپ کو بھی اچھی طرح یاد ہوگا کہ کچھ لوگ انفرادی طور پر اٹک کے نزدیک دریائے سندھ سے ذروں کی شکل میں سونا نکالتے تھے ۔ ایک دن دوستوں کے ساتھ اٹک جانے کا اتفاق ہوا اور اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ لوگ شاول ( ایکسیویٹر ) کی مدد سے ذرات نکالنے میں مصروف تھے پھر اچانک گورنمنٹ نے اس پر پابندی لگائی ۔ یہ بات آپ کے علم میں بھی ہوگی اور میں بھی آپ کو بتاتا چلوں کہ سونے کے یہ ذرات اس دریائے سندھ میں پیدا نہیں ہوتے بلکہ یہ دور دراز کے پہاڑوں سے آبشاروں اور ندی نالوں کے ذریعے یہاں تک پہنچتے ہیں اور اگر اس کو نہ نکالا گیا تو یہ آہستہ آہستہ پانی کے ساتھ سمندر میں جاکے ہمیشہ کے لئے غرق ہوجائیں گے ۔ سوچنے کی بات ہے کہ خدا کی دی ہوئی دولت اور سونا خود اپنے ہاتھوں سے سمندر برد کرنا کتنی حماقت کی بات ہے لکھنے کو تو بہت کچھ ہیں ۔ لیکن سوچتا ہوں کہ کوئی ملک کو ایسا چلائے گا ایسے تو کوئی کباڑ کی دکان بھی نہیں چلاتا ۔ پاکستان میں بہت کچھ ہیں، بس صرف مخلص قیادت کی ضرورت ہے پاکستان زندہ باد