قبائلی اضلاع ترقی کی راہ پر گامزن

تحریر:عبداللہ شاہ بغدای ۔۔۔
دہشت گردی اور ترقیاتی کام ایک ساتھ نہیں چل سکتے، بدامنی کے مکمل خاتمے کو یقینی بنانا اور مقامی آبادی اس حوالے سے اپنی توجہ مرکوز ر کھنا، قیامِ امن کے لئےسیکیورٹی فورسز کے ساتھ تعاون کرنا ہے ، جس کی زندہ مثال سابقہ وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) ہے۔مئی 2018 میں حکومت پاکستان نے ایک تاریخی آئینی ترمیم منظور کی جس کے ذریعے سے وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں کی نیم خودمختار حیثیت کا خاتمہ ہوگیا، یہاں کا نظم چلانے والے نوآبادیاتی دور کے قوانین منسوخ ہوگئے اورملکی علاقائی حدود میں اس کا انضمام ہوگیا۔ اس انضمام کی بڑے پیمانے پر تشہیرغربت زدہ قبائلی علاقے میں تعمیر وترقی متعارف کروانے اورعسکریت پسندی اور تنازعے سے بھرپور تاریخ کو امن و استحکام بخشنے کے طور پر کی گئی تھی۔اس تبدیلی سے سات قبائلی اضلاع باجوڑ، مہمند، خیبر، اورکزئی، کرم، شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان کے چھ ملین باشند وں کو انہیں دیگر پاکستانیوں جیسے حقوق مل رہے ہیں۔اس تاریخی انضمام سے رہائشیوں کی زندگیاں بہتر بنانے کے متعدد مواقع فراہم ہو ئے اور مستقل خوف میں رہنے والے باشندے اب مزید پسماندہ نہیں ، ماضی میں صحت، تعلیم اور معاشرتی محکمہ جات قبائلی علاقہ جات میں خدمات نہیں پیش کرتے تھے۔لیکن اب قبا ئلی اضلاع ترقی کا ایک عہد دیکھیں رہے ہیں جو ہزاروں ملازمتیں پیدا کرے گا اور بہتر صحت، تعلیم، توانائی، پانی اور صفائی کے لیے بنیادی ڈھانچے کی تشکیل میں معاون ہو گا۔صرف قوانین بنا لینا کافی نہیں ہوتا جب تک ان قوانین کے تحت رولز میسر نہ ہوں، اور ادارے موجود نہ ہوں تو حکمرانی کا مجموعی نظام سست روی کا شکار ہو جاتاہے۔ قبائلی علاقے اب آئینی اور قانونی طور پر خیبرپختونخوا کا حصہ ہے ہم ان کی بھر پور فلاح اور ترقی چاہتے ہیں۔ تمام محکمے ضم شدہ قبائلی اضلاع کو ترقی کے قومی دہارے میں لانے پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔ قبا ئلی اضلاع کے عوام کی زندگی کو مثبت تبدیلی سے ہمکنار کرنا اور ان کو ریلیف دینا حتمی اور ناگزیر ہدف ہونا چاہیئے ،وفاقی اور خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت صوبائی محکموں کو نئے اضلاع کے تیز رفتار انضمام اور انکی فلاح و ترقی کے مجموعی عمل پر غیر معمولی توجہ مرکوز رکھے ہو ئے ہیں جس کا مقصد جس حد تک ممکن ہوا جلد سے جلد نئے اضلاع کے عوام کی زندگی میں بہتری لانی ہے۔ کہ انضمام کے پس پردہ اہداف کا حصول یقینی ہو، اور اس کے مثبت اثرات قبائلی عوام کے طرز حیات میں نظر آئیں اور قبائلی عوام کے تحفظات دور کئے جائیں گے۔اگر نظر دوڑا جائے توقبا ئلی علاقہ جات کا خیبر پختو نخواہ میں انضمام ایک مٖشکل کام تھاجو وفا قی اور صوبا ئی حکومت کی مشترکہ کاوشوں سے پایا تکمیل تک پہنچا ہے اور ان علاقوں میں ترقی کا سفر شروع ہوچکا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قبا ئلی علاقو ں کی عوام نے لا زوال قر با نیا ں دی ہیں جنہیں فراموش نہیں کیا جاسکتا- مو جودہ حکومت قبائلی علاقوں سے پسماندگی کے خاتمے اور ان کو ملک کے ترقی یا فتہ علاقوں کے برابر لا نے کے لئے ترجیح بنیادوں پر اقدامات اٹھا رہی ہے۔ قبائلی علاقوں میں بہترین طبی،تعلیمی و دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی اور ذرائع آمد و رفت کی تعمیر موجودہ حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ قبائلی اضلاع میں روز گار کی فراہمی کے لئے قبائلی نوجوانوں کو اپنے کاروبار کے لئے قرضے فراہم کئے جا ئیں گے۔ قبائلی عوام نے ملک کے امن کہ قیام کی خاطر قربانیاں دی ہیں اور دہشت گردی کی جنگ میں قبائلی علاقوں کا انفرا سٹرکچر اور کا روبار بری طرح متاثرہوئے ہیں اور معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔لیکن ضم شدہ قبائلی اضلاع کی پائیدار ترقی کو موجودہ حکومت کی ترجیحات میں سر فہرست ہے صوبائی حکومت وزیر اعظم عمران خان کے ویژن کے مطابق ضم شدہ اضلاع کی تیز رفتار ترقی کے لئے ایک مربوط حکمت عملی کے تحت ترجیحی بنیادوں پر عملی اقدامات اٹھارہی ہے اور وہ بذات خود ضم شدہ اضلاع میں ترقیاتی منصوبوں پر عملدرآمد کی نگرانی کر رہے ہیں تاکہ ان منصوبوں کی بروقت تکمیل کو ممکن بناکر وہاں کے عوام کی محرومیوں کا جلد ازالہ کیا جاسکے۔ قبائلی اضلاع کے لئے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں شامل کئے جانے والے عوامی فلاح و بہبود کے تمام ترقیاتی منصوبے وہاں کی عوام کے منتخب نمائندوں کی مشاورت سے سے ترتیب دیے جارہے ہیں۔ کسی بھی علاقے کی پائیدار ترقی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ترقیاتی عمل میں اس علاقے کے عوام اور متعلقہ شراکت داروں کی مشاورت شامل نہ ہو، ضم شدہ قبائلی اضلاع کے ممبران صوبائی و قومی اسمبلی قبائلی عوام کے منتخب نمائندے ہیں لہذا شروع دن سے ہی موجود حکومت کی یہ پالیسی رہی ہے کہ قبائلی اضلاع کے لئے کوئی بھی ترقیاتی منصوبہ وہاں کے عوامی نمائندوں کی مشاورت اور اتفاق رائے کے بغیر ترتیب نہیں دیا جائے گا۔ قبائلی اضلاع کی صوبے میں انضمام کو ایک تاریخی اقدام اور موجودہ حکومت کا ایک اہم کارنامہ ہےاگرچہ انضمام کا عمل ایک طویل، مشکل اور پیچیدہ کام تھا لیکن وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی مخلصانہ قیادت میں موجود حکومت انضمام کے تقریبا تمام مراحل انتہائی قلیل وقت میں مکمل کر چکی ہے اب علاقے کو ترقی کے میدان میں دوسرے علاقوں کے برابر لانے کے لئے ترجیحی بنیادوں پر ٹھوس اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ بہت جلد قبائلی عوام انضمام کے ثمرات سے مستفید ہونگے اور عشروں پر محیط ان کی پسماندگیاں ختم ہوجائیں گی۔