اقتدار سے پہلے پی ٹی آئی کے دعوے اور بیرونی قرضے

تحریر دانیال احمد محسن ۔۔۔
پاکستان تحریک انصاف نے احتساب کے نام پر عوام سے ووٹ حاصل کیے عمران خان صاحب نے اقتدار کو سنبھالتے ہوئے ” کسی کو نہیں چھوڑوں گا ” کا نعرہ بلند کیا اور جناب عمران خان صاحب کے محترم کھلاڑیوں نے ماضی میں سیاسی مخالفین کو چور ڈاکو جیسے القابات سے نوازتے تھیں ۔ لیکن ان سب سے زیادہ دلچسپ تقریر جناب مراد سعید صاحب کا تھا جنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ جس دن جناب عمران خان صاحب اقتدار سنبھالیں گے تو اگلے ہی دن پاکستان کا سارا قرضہ ختم ہوجائے گا اور جو پاکستان کے اربوں ڈالر باہر پڑے ہیں وہ پاکستان میں آجائیں گے ۔ وہ دعوی کچھ اس طرح تھا ” کہ جس دن عمران خان نے حلف لیا تو میرے پاکستان کا دو سو ارب ڈالر جو باہر بینکوں میں پڑا ہوا ہے عمران خان اگلے دن اس کو پاکستان واپس لے کے آئے گا پہلے دن سو ارب ڈالر باہر دنیا کے منہ پر دے مارے گا اور سو ارب آپ ( پاکستانی عوام ) کہ اوپر لگائے گا کہتے ہیں کہ پاکستان میں یومیہ 12 ارب کی کرپشن ہوتی ہے اور اگلے دن جب عمران خان آفس جائیں گے تو سب کی فائل لائیں گے اور سب کو پھانسی پر لٹکایا جائے گا نہ نیب اور نہ سپریم کورٹ سیدھی پھانسی ” لیکن آج جناب نواز شریف صاحب باہر کیوں ؟ جناب آصف علی زرداری صاحب آزاد کیوں ؟ جناب جہانگیر ترین صاحب آزاد کیوں ؟ حتی کہ جہانگیر ترین نااہل بھی ہے اور شوگر ملز کیس میں ملوث بھی ہے لیکن اس کے باوجود بھی جناب جہانگیر ترین صاحب آزاد پنچھی کی طرح باغ سے مزے لے رہا ہے۔
اگر بدل نہ دیا آدمی نے دنیا کو
تو جان لو کہ یہاں آدمی کی خیر نہیں
شاید جناب عمران خان صاحب کی کی وہ تقریر ہر کسی کو یاد ہوگی کہ بطور وزیراعظم میں باہر دنیا سے قرض نہیں لوں گا اور کہا کرتے تھے کہ عمران خان جب وزیراعظم ہو تو کبھی بھی باہر دنیا سے بھیک نہیں مانگوں گا اس سے بہتر تو خود کشی ہے
لیکن اگر آج کی حکومت کا موازنہ کیا جائے تو 1947 سے 2008 تک قومی قرضہ چھ ہزار ارب روپے تھا ، اور پھر پاکستان پیپلز پارٹی کی پانچ سالہ دورِ حکومت میں یہ قرضہ چھ ہزار ارب روپے سے بڑھ کر 16 ہزار ارب روپے کر دیا گیا اور پھر پاکستان مسلم لیگ نون نے یہ یہ قرضہ سولہ ہزار ارب روپے سے بڑھا کر تیس ہزار ارب روپے کر دیا گیا۔ جس طرح کے میں نے کالم کے شروع میں ذکر کیا کہ عمران خان اور مراد سعید نے اقتدار سنبھالنے سے پہلے فرمایا تھا کہ ہم قرضوں کو ختم کریں گے اور مزید قرض نہیں لیں گے تاریخ گواہ ہے کہ قرض نہ لینے کے برعکس یہ قرض لینے کا سلسلہ جاری رہا اور یوں پاکستان تحریک انصاف کی 22 ماہ حکومت میں یہ قرض تیس ہزار ارب سے بڑھ کر 43 ہزار ارب روپے کر دیا تحریک انصاف حکومت نے اقتدار سے پہلے دعویٰ کیا تھا کہ وہ قومی قرضوں کے بارے میں تحقیقات کرے گا۔ لیکن اس بات کی تحقیق کون کرے گا کہ تحریک انصاف حکومت میں 13 ہزار ارب روپے کا اضافہ کیسے ہوا ؟ قرض کیسے بڑھا ؟ ایک سادہ سی مثال اگر ایک ملک کی سالانہ آمدن 10لاکھ ہے اور سالانہ اخراجات 12 لاکھ مطلب کہ اس ملک کو دو لاکھ کی ضرورت ہے اب اس دو لاکھ کو پورا کرنے کے لیے حکومت قرض لے گا جس سے حکومت کی ضروریات پوری ہوں اب بہتر یہی ہوگا کہ یہ دس لاکھ اور ساتھ میں دو لاکھ عوام کے لیے استعمال ہوں ہو تو اگلے سال ملکی آمدن میں اضافہ ہو کر ملک کو قرض نہیں لینا پڑے گا لیکن بجائے اس کے کہ یہ سارا بجٹ أمرا کہ آرام ، سکون ، عیاشی بڑے بڑے محلات ، گاڑیاں اور دیگر فضول خرچیوں میں لگایا جائے اور رعایا کو کچھ نہ ملے تو یہی ملک ہر سال قرضوں میں اضافہ کرتا رہتا ہے‌۔ اس سے پہلے کہ ملک قرضوں میں دب جائے اور کپتان صاحب فرمائے کہ میچ میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے اور ہم یہ میچ ہار گئے تو پھر کپتان صاحب سے کون پوچھے گا اور یہ ہوگا بھی اسی طرح کیونکہ کپتان صاحب نے 22 ماہ میں زرداری صاحب کے پانچ سال سے زیادہ قرض لیا ہیں اور ملک معاشی اور سیاسی طور پر بھی بہت پیچھے چلا گیا ہے ۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس ملک کو ایسا دریا دل حکمران عطا فرمائے جو شاہانہ اخراجات میں کمی لائے اور طرز حکمرانی میں بھی سادگی اختیار کرے آمین ۔ پاکستان زندہ باد