شبقدر ایف سی قلعہ،اور اس کے 180 سال پرانے قیدی۔۔

تحریر:گوہر رحمان ۔۔۔۔
چارسدہ کی تحصیل شبقدر ایک تاریخی اہمیت کا حامل شہر ہے۔ اس شہر کا پرانہ نام شنکر گڑہ تھا، اس قلعے کے 2 ایسے گیٹ ہے جو اپنی سو سالہ سزا کا وقت پورا کرنے کے باوجود بھی قید ہے۔ قلعے میں موجود دونوں گیٹ 180 سال سے پابند سلاسل ہیں۔شبقدر پر راجہ رنجیت سنگھ کی حکمرانی کا دور تھا اور شبقدر میں سکھوں کی فوج کے خلاف مہمند قبائل کے حملے جاری تھے۔ اس دور میں راجہ رنجیت سنگھ کی فوج کو مھمند قبائیل کی جانب سے ہر وقت حضیمت کا سامنا کرنا پڑتا تھا، اس لئے راجہ رنجیت سنگھ نے اپنے بیٹے شیر سنگھ کو شبقدر کے کسی محفوظ مقام پر قلعہ تعمیر کرنے کا حکم دیا تاکہ مہمند قبائل کے حملوں کی روک تھام کا بندوبست کیا جاسکے۔ قلعے کی تعمیر کا کام 2 برسوں کے قلیل عرصے میں مکمل کیا گیا اس قلعے کے ذریعے شہر کے اردگرد دیگر قلعوں میں موجود سکھ فوجوں کے ساتھ پیغام رسانی اور مہمند قبائل کی نقل وحرکت پر نظر رکھی جانی تھی۔ 1837ء میں یہاں پر شیر سنگھ کی قیادت میں سکھ افواج نے مہمند قبائل کی سرکوبی کے لیے کام شروع کیا۔

قلعے کی تعمیر سے قبل شنکر گڑھ کو شریف کور پکارا جاتا تھا جیسے ہی اس قلعے کا کام مکمل ہو یہا پر سکھ آباد ہونا شروع ہوگئے، اور انھوں نے اپنے کاروبار شروع کردئے اور اسی مناسبت سے اس کا نام شنکر گڑھ پڑا۔شیر سنگھ کا اس قلعے کو انچائی پر بنانے کا اصل مقصد یہ تھا کہ کہ اس کے ذریعے دور دور تک نگرانی رکھ سکے اور ان کے خلاف ممکنہ حملوں کے خلاف بہتر حکمت عملی بنا سکے اور حملوں سے نمٹ سکے۔ اس قلعے میں ایک واچ ٹاور بھی بنایا گیا تھا جس سے وہ دشمن کی نقل و حرکت پر نظر رکھتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ اس ٹاور کے زریعے پشاور اور ملحقہ علاقوں کے ساتھ رابطہ بھی کیا جا سکے۔ 3 برسوں کے مختصر عرصے میں مہمند قبائل نے اس قلعے پر کئی بار حملے کیے لیکن انہیں خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی۔ 1840ء میں مہمند قبائل کا لشکر ’سعادت خان‘ کی قیادت میں قلعہ شنکر گڑھ (شبقدر) پر حملہ آور ہوا۔ پہلے تو سکھ افواج نے جم کر مقابلہ کیا لیکن حملہ آور لشکر کے کچھ سپاہی قلعے کے مرکزی دروازے توڑ نے میں کامیاب ہوگئے اور قلعے میں موجود سکھ سپاہیوں کو قتل کرنا شروع کردیا۔ راجہ شیر سنگھ نے پشاور اور مچنئی قلعوں میں فوجیوں سے مدد کے لیے پیغام بھیجا، جس کے نتیجے میں مہمند قبائل کا لشکر واپس لوٹنے پر مجبور ہوگیا۔شیر سنگھ نے جہاں اپنی رہی سہی فوج کو اکٹھا کرنا شروع کیا وہیں مہمند قبائل کی طرف سے قلعے کے دروازے توڑنے پر اس نے غور و فکر شروع کردیا، شیر سنگھ نے ایک’فرانسیسی جنرل جین ویٹوریا‘ کی عدالت میں مقدمہ دائر کیا۔ عدالت نے 2 دن کے اندر اندر قلعے کا ڈیزائن بنانے والے ماہرِ تعمیرات ’توتا رام‘ کو قصوروار قرار دے کر اس کے ہاتھ کاٹنے اور قلعے کے دروازوں کو 100 سال کی قید کا فیصلہ سنایا۔ اس فیصلے پر عملدرآمد کرتے ہوئے توتا رام کے ہاتھ کاٹ دیئے اور قلعے کے مرکزی دروازوں کو واچ ٹاور کے ساتھ طویل قید کے لئے زنجیروں سے باندہ دیا۔لیکن آج ان دروازوں کی قید کو پورے ہوئے 80 سال کے لگبھگ ہوگئے مگر ان کو آج تک کھولا نہی گیا۔ کیونکہ اس کو نہ کھولنے کا مقصد اپنی آنے والی نسلوں کو اس تاریخی واقعے کے بارے میں بتانا ہے۔ یہ شہر مغل بادشاہوں کا بھی مرکز تھا۔ تاہم ، مغلوں کے زوال کے بعد یہ انگریزوں کے قبضے میں آگئی ۔

شبقدر میں رہنے والے قبائل ابتدائی مرحلے میں شہاب الدین غوری اور محمود غزنوی کے حملہ آوروں کے ساتھ آئے تھے۔ 1897ء میں چکدرہ کے مقام پر شورش کے خاتمے کے بعد چرچل کچھ عرصے کے لیے شبقدر قلعے میں رُکے تھے تاکہ یہاں پر عرصہ دراز سے جاری مہمند قبائل کے حملوں پرکنٹرول کیا جاسکے ۔ جس کمرے میں چرچل نے قیام کیا تھا وہ آج بھی چرچل ہٹ کے نام سے موجود ہے اور چرچل کے زیرِ استعمال پلنگ، پنکھا، تصاویر اور دیگر چیزیں اسی کمرے کی زینت بنی ہوئی ہیں۔شبقدر قعلہ اب فرنٹیر کانسٹبلری کے پاس ہے جہاں وہ نئے آنے والے جوانوں کو ٹرینگ دیتے ہیں جو پھر ملکی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں۔