پب جی کھیل ، نشہ یا خاموش قاتل ؟

تحریر : دانیال احمد محسن ۔۔۔
عام طور پر تو جب بھی ہم نشے کا نام سنتے ہیں تو ہمارے ذہنوں میں نشہ آور چیزیں مثلا شراب ، افیون ، ہیروين ، کوکین اور الکوحل وغیرہ کے نام آتے ہیں یہ نشے کے عادی لوگ معاشرے سے الگ دنیا کے ایک کونے میں بے فکری کی نیند سوتے ہیں ، لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کرسی ، دولت ، طاقت کے نشہ کرنے کے عادی ہوتے ہیں ۔ لیکن یہاں میں نشہ کی نہیں بلکہ ایک کھیل کا ذکر کروں گا۔ کچھ عرصہ پہلے لوگ اپنے آپ کو ریفریش کرنے اور بوریت ختم کرنے کے لئے کھیلوں کے میدانوں کا رخ کرتے تھے کوئی کھیلنے جاتے تو کوئی تالیاں بجانے اور تماشا کرنے کے لئے۔ لیکن پھر وقت بدلتا رہا لوگ کھیلوں کے میدانوں کی بجائے دوکانوں میں ویڈیو گیمز تک محدود ہوئے مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب میرے استاد محترم منظور صافی صاحب نے مجھے سے پوچھا کہ آپ کون سا کھیل کھیلتے ہو ؟ تو میں نے جواب دیا کہ سر موبائل پر سانپ والا ۔۔۔ میرے استاد کا وہ ہنستا مسکراتا ہوا چہرہ مجھے آج بھی یاد ہے ۔۔۔ لیکن اب حالات سمارٹ ہونے کے ساتھ لوگ بھی سمارٹ ہونے لگے اور کھیل بھی ۔۔۔ اس سمارٹ دور میں آج میں اپنے گاؤں جوگیان کا ذکر ضرور کروں گا ۔ میرا ایک قریبی دوست عامر خان جو مجھے اکثر کہتا رہتا ہے کہ پب جی صرف ایک کھیل نہیں بلکہ ایک انتقامی جنگ ہے جس میں ایک بندے کو مار کر آگے جانے کی اجازت ہوتی ہے جو ہمارے معاشرے کے بچوں اور خاص کر طلباء کو بہت تیزی سے تباہ کر رہا ہے اس گیم میں صرف لڑائی اور جھگڑے دکھائی دیتے ہیں جس سے ریفریشمنٹ کے بجائے بچے صرف اور صرف لڑائی اور جھگڑے ہی سیکھتے ہیں بچے ذہنی طور پر متاثر ہوتے ہیں ۔ اگر دیکھا جائے تو ملک بھر میں کورونا وائرس کی وجہ سے جاری لاک ڈاون کے دوران بچے گھروں سے باہر نہیں جاسکتے اس لئے وہ ایسی گیمز کھیلتے ہیں آج کے دور میں تقریباً ہر گھر میں بچوں کو اینڈرائیڈ موبائل فون یا لیپ ٹاپ مہیا ہوتے ہیں وہ دن‌ بھر ان پر گیمز کھیلتے ہیں جن میں سر فہرست پپ جی گیم ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک جگہ پر مسلسل گھنٹوں بیٹھ کر پب جی کھیلنے سے بچوں کے ذہنی وجسمانی صحت پر مضر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور آنکھوں کی بینائی بھی متاثر ہوسکتی ہیں ۔ میرے ایک بہت ہی قریبی دوست سجامل یودن نے ایک رپورٹ میں ایک شخص کو دکھایا تھا جو پب جی کھیل کا شکار ہوا تھا جو روزانہ بارہ سے لے کر چودہ گھنٹوں تک قتل و غارت سے بھرپور پب جی کھیل کھیلتا تھا جس کی وجہ سے اس کے دماغ متاثر ہوئے تھے جس کی وجہ سے جسم اور زبان نے حرکت کرنے چھوڑ دیا تھا ، یہ تو صرف ایک بندے کی رپورٹ تھی ایسے ہزاروں لوگ موجود ہیں جو پب جی سے متاثر ہوئے ہیں۔۔۔
پب جی ایک آن لائن ملٹی پلیئر بیٹل گیم ہے جو بچوں میں کافی مشہور ہے یہ اس وقت دنیا کے مقبول ترین موبائل فون گیمز میں سے ایک ہے جسے ایک تخمینے کے مطابق ماہانہ دس کروڑ افراد اپنے موبائل پر کھیلتے ہیں ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ پب جی ایک مزیدار گیم ہے لیکن اس کے عادی ہونے والوں کے ذہنی وجسمانی صحت پر مضر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں یہ انتہائی جذباتی قسم کا گیم ہے اسے کھیلنے والوں میں انتہائی جذباتی اور جارحانہ خیالات پیدا ہوسکتے ہیں۔ میرے گاؤں جوگیان میں بھی پب جی کے پلیئرز موجود ہیں جو ساری ساری رات پب جی کھیلتے رہتے ہیں اور صبح جب عید کے نماز کا وقت ہوتا ہے تو وہ عید کے دن بھی خواب غفلت کی نیند سوتے ہیں ، کل رات ایک دوست‌ نے بتایا کہ یہاں جماعت دوم کے طالب علم بھی اس نشہ کا شکار ہوئے ہیں اور اس کارخیر میں والدین بھی برابر شریک ہے۔اگر اسی طرح بچے اور طلباء اس خاموش قاتل کا شکار ہوتے رہیں تو شاید ہر بندہ ذہنی مریض بن جائے گا ۔ اب یہ تمام والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں پر نظر رکھیں کہ کیا میرا بچہ تو اس نشہ کا شکار نہیں ؟ والدین کو چاہیے کہ بچوں کو ایسے حالات مہیا کریں جہاں ریفریشمنٹ کے ساتھ ذہنی و جسمانی ورزش بھی ہو کیونکہ یہ بچے ہماری قوم کا قیمتی سرمایہ ہیں اگر خدانخواستہ یہ سرمایہ ضائع ہوجائے تو حالات اس سے بھی خراب ہوسکتے ہیں۔ پاکستان زندہ باد