مودی گیم پلین: ہایبرڈ وارفئیر کے زریعے کیسے لوگوں کی توجہ کو حقیقی مسائل سے ہٹایا جاتا ہے؟

تحریر:گوہر رحمان ۔۔۔۔
ہندوستان میں جب جب سے بھارتی جنتا پارٹی نے حکومت سنبھالی ہے وہ مسلسل عوام کو کسے نہ کسی ایسے مسلے میں الجھائے رکھتی ہے جس سے ہندوستان کی عوام اصل مسائل سے بھٹکی رہے۔ اور حکومت کی طرف عوام کی نظر نہ جائے۔ اور سب سے زیادہ بی جے پی نے جو ہمیشہ سے خود کو بیچنے کے لئے پیش پیش رہی ہے۔ چاہے وہ نتھو رام گوڈسے ہو جس نے صرف جیل سے نکلنے کے لئے انگریوں کے تلوے چاٹے اور بار بار معافیاں مانگی، یہ وہ امت شاہ ہو یہ مودی جو امریکا کے تلوے چاٹنے پر آجکل مجبور ہے نہ ہندوستان کی عوام کے ذہن میں پاکستان دشمنی اور مسلمان دشمنی سے بھر دیا ہے اور خود کو ان کا رکھوالے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ مگر درحقیقت وہ ڈیلور کرنے کے بجائے عوام کو بیوقوف بنانے میں لگے ہوتے ہیں۔
یہاں تک کہ مودی حکومت اور اس کی ذیلی تنظیم آر ایس ایس نے مسلم دشمنی میں انتہا کو چھوتے ہوئے کورونا وائرس جو ایک عالمی وبا ہے۔ اس کے پھیلاو کو مسلمانوں سے منسوب کردیا۔ درحقیقت مودی حکومت اس کو روکنے یہ کنٹرول کرنے کے قابل نہ تھی اس ئے انھوں نے مسلمانوں کو چارا بنایا۔ غیر ضروری مسائل میں خود کو الجھا کر مودی حکومت نے نہ صرف ملکی معیشیت کا دیوالیہ نکال دیا ہے بلکہ عوام کو بھی بھوک سے مار دیا ہے۔ہندوستان میں معاشی سست روی نے وقت کی کم ترین سطح کو عبور کیا ہے۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق ، مسلسل دوسرے سال ہندوستان کی معاشی نمو کم ہوئی۔ 2018-19 میں ، یہ 6.8 فیصد رہی جو کہ 2017-18ء میں 7.2فیصد سے کم ہو کر موجودہ کھاتوں کا خسارہ 2018 میں بڑھ کر 2.1 فیصد ہو گیا تھا – جو پچھلے سال 1.8 فیصد تھا۔ ہندوستان کے چھوٹے پڑوسی ممالک بہتر کام کر رہے ہیں۔ 8.1 فیصد کے ساتھ بنگلہ دیش اور 6.5 فیصد کے ساتھ نیپال بھارت کی جی ڈی پی کی معمولی شرح نمو کو 6 فیصد بڑھا دے گا۔ مہاراشٹر کے اقتصادی سروے نے غذائی اجناس ، دالوں اور روئی کی فصل کی کمی ، خشک سالی ، قیمتوں کی ناکافی پالیسیوں اور زراعت کو بری طرح متاثر کرنے والے پانی کے ناقص انتظام کی وجہ سے 2017-18 میں زراعت کی منفی نمو کی پیش گوئی کی تھی ۔ ریاستی انتخابات کے موقع پر ، سبزیوں کی قیمتیں آسمانوں پر چھا رہی ۔ 2012 میں ، مہاراشٹر میں ہندوستان کے تمام کسانوں کی خودکشیوں کا ایک چوتھائی حصہ تھا۔ اور 2009 اور 2016 کے درمیان ریاست میں مجموعی طور پر 25،613 کسانوں نے خودکشی کی ہے۔یہ عجیب بات ہے کہ مودی حکومت اپنے عوام کے ان حقیقی مسائل کو حل کرنے کی بجائے سیاسی فائدے کے لئے قومی سلامتی اور قوم پرستی کے جیسے غیر ضروری کاموں میں مصروف ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ بڑے پیمانے پر لوگوں کو غلط بیانیہ سے گمراہ کیا جاتا رہا ، جبکہ زمینی حقیقت بالکل مختلف ہے۔ حکومت اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لئے لوگوں کی توجہ دباؤ والے مسائل سے ہٹا رہی ہے۔کشمیر میں ، ریاست کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے ، اسے مسمار کرنے اور اسے دو مرکزی علاقوں میں تقسیم کرنے کے حکومت کے یکطرفہ اور غیر جمہوری اقدام کے خلاف عوام کی طرف سے منظم مزاحمت کی جارہی ہے۔ مواصلاتی ناکہ بندی اور اسکولوں اور کالجوں اور سڑکوں کو ویران کرنے کے ساتھ ہی ریاست کو کئی ماہ سے زیادہ لاک ڈاؤن کا سامنا ہے۔ ریاست کی پوری معیشت تباہ ہوچکی ہے ، جس سے ہزاروں افراد بے روزگار ہوگئے ہیں۔ ایک بڑے پیمانے پر سول نافرمانی کی تحریک چل رہی ہے۔ حکومت کا یہ پروپیگنڈہ کہ ریاست ’معمول پر آرہی ہے‘ حقیقت کے برعکس ہے۔مودی حکومت نے یہاں پر بس نہ کیا، انھوں نے ان صحافیوں کو بھی نشانا بنانا شروع کردیا جو ان کی بدانتظامی اور کرپشن کے پول کھول رہی تھی۔ مودی کا دور ہندوستان میں سوشل میڈیا کے استعمال میں غیر معمولی اضافے کے ساتھ تھا ، جس کا ذریعہ اس حکومت نے ناقدین کو نشانہ بنانے ، رائے عامہ کو متحرک کرنے اور “ملک دشمن” جیسے ٹیگ استعمال کیا ، جس کا اصل مقصد ان لوگوں کو بدنام کرنا تھا جو ان کے خلاف ہو۔ ہندوستان میں گذشتہ پانچ سالوں کے دوران نامہ نگاروں کے موبائل نمبر باقاعدگی سے واٹس ایپ گروپس میں پھیلائے گئے ، اور انھیں موت اور جنسی عصمت دری کی دھمکیوں اور آن لائن دھمکیوں کی دوسری شکلوں کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ایک اندازے کے مطابق صرف 2016 سے 2018 کے درمیان ہی ، سوشل نیٹ ورک استعمال کرنے والے ہندوستانیوں کی تعداد 168 ملین سے بڑھ کر 326 ملین ہوگئی ہے ، جس سے حکمران جماعت غیر سرکاری اکاؤنٹس کی گرفت کے ذریعے آدھی سچائیوں اور جعلی خبروں کو پھیلانے کا ایک آسان ذریعہ بن گئی ہے۔ ان صحافیوں پر حملہ کرنے کیلئے ٹرول جو ان کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتے تھے۔لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی حکمران جماعت کی پروپیگنڈا مشین اتنی موثر نہیں رہی جتنی پہلے تھی۔ بہت سارے محاذوں پر اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لئے مودی شاہ حکومتنے ان کے منہ میں الفاظ ڈالے پر اب مودی، شاہ حکومت پر بھی کڑی تنقید کرتے ہیں ۔ ابھی حال ہی میں کورونا وائرس سے سہی طرح سے نہ نمٹنے اور لوگوں کو گھروں میں کئی ماہ تک محصور رکھنے کی وجہ سے جب ان پر تنقید شروع ہوئی تو انھوں نے لداخ کے سکم بارڈر پر مسئل بنانا شروع کردئے۔ لیکن چینی فوج نے ان کو ان کی ایسا جواب دیا کے انھیں یاد رہے گا۔