الطاف حسین حالی بطور شاعر اطفال

تحریر: راج محمد آفریدی
( پیدائش 1837 ،وفات 31دسمبر 1914 )
مقدمہ شعر و شاعری، حیات جاوید ،حیات سعدی ،یادگارغالب کے خالق، اردو شعر و ادب کے مجدد، پہلے نقاد ،سوانح نگار، حقوق نسواں کے علمبردار، بہترین شاعر، شمس العلماء الطاف حسین حالی کا شمار اردو نثر کے عناصر خمسہ میں ہوتا ہے۔ انہوں نے اردو ادب کی ترویج کے لیے اپنی زندگی وقف کی تھی۔ حالی اردو تنقید کے بنیاد گزار اور جدید نظم کے امام تھے ۔ان کا کلام قومیت پرستی اور مذہب پرستی کے سب ملی سرمایہ ہے۔
الطاف حسین حالی جملہ صفات سمیت ایک مکمل شاعر بھی تھے۔ انہوں نے اردو کے کل 8518 اشعار کہے ہیں۔ فارسی اور عربی اشعار ملاکر یہ تعداد 9320 بنتی ہے ۔الطاف حسین حالی کی مقصدی،اخلاقی، پند و نصائح پر مبنی شاعری کے سبھی قائل ہیں۔ ایک دفعہ انہوں نے کسی محفل میں اپنی مشہور غزل
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھہرتی ہے دیکھئے جاکر نظر کہاں
اس کے بعد حضرت داغ کی باری
تھی انہوں نے آکر کہا کہ حالی کی غزل سننے کے بعد میری غزل خود میری نگاہوں سے گر گئی۔ مسدس حالی کو تو زمانہ جانتا ہے۔ اس نظم کو سرسید روز محشر کو خلاصی کا سبب گردانتا ہے ۔حالی کے ادبی کارناموں سے ایک دنیا واقف ہے مگر اس کے ساتھ وہ بچوں کے اعلٰی پائے کے شاعر تھے، بہت کم لوگ واقفیت رکھتے ہیں۔ اس لیے اس مضمون میں حالی کو بچوں کے شاعر کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔
الطاف حسین حالی تمام انسانیت خصوصاً بچوں سے بہت محبت کرتے۔ جس کا ثبوت ان کی شاعری میں جابجا ملتا ہے ۔یہ بات ان کے علم میں تھی کہ انسان سازی کا دور مہد سے لحد تک ہوتا ہے لیکن بچپن کا دورانیہ کافی اہمیت کا حامل ہوتا ہے کہ اس دور میں انسان کی پرورش صحیح معنوں میں ہوتی ہے۔حالی نے بچوں کی ذہنی کیفیات کا مطالعہ کر کے ان کے لیے اشعار کہے ہیں۔ اس مد میں انہوں نے بچوں کے معروف ترین شاعر اسماعیل میرٹھی کی تقلید کی ہے لیکن اس صنف میں میرٹھی کا مقام و مرتبہ بہت بلند رہا ہے۔
بچوں کے لیے ادب تخلیق کرتے وقت ادیب سادہ، سلیس، شگفتہ اسلوب میں محاورات تشبیہات سے پاک تخلیقات جو بچوں کی ذہنیت سے مطابقت بھی رکھتے ہوں، منظرعام پر لاتا ہے۔ مثلاً اسماعیل میرٹھی کا ایک شعر ملاحظہ ہو
رب کا شکر ادا کر بھائی
جس نے ہماری گائے بنائی
ادب اطفال کے لیے مقرر کردہ شرائط پر الطاف حسین حالی پورے اترتے ہیں۔ انہوں نے نہایت سادہ اور شستہ زبان میں بچوں کے لیے نظمیں لکھیں جن کو سمجھنے میں صبیان کو کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا ہوتا۔ حالی نے بچوں کے لیے مختلف ہئیتوں پر مبنی متعدد نظمیں لکھی ہیں جن میں 14 شائع ہوچکی ہیں۔بچوں کے لیے کہے گئے ان اشعار کی تعداد تین سو ستاسٹھ ہے۔
الطاف حسین حالی نے اشعار کی شکل میں قصہ کہانی بیان کر کے بچوں میں نیکی اور ہمدردی کے جذبات پیدا کرنے کی بھرپور سعی کی ہے۔نظم “خدا کی شان” میں انہوں نے سادہ اور دلکش انداز میں حمدیہ اشعار کے ذریعے بچوں کے سامنے رب کائنات کی شان و شوکت اور صفات کا بیان کیا ہے. اس کے ساتھ اللہ تعالی کی نعمتوں کا ذکر کر کے بچوں میں شکر ادا کرنے کا مادہ پیدا کیا ہے.اس نظم کے چند اشعار یہ ہیں :
اے زمین آسمان کے مالک
ساری دنیا جہاں کے مالک
تیرے قبضے میں سب خدائی ہے
تیرے ہی واسطے بڑائی ہے
تو ہی ہے سب کا پالنے والا
کام سب کا نکالنے والا
آنکھ دی تو نے دیکھنے کے لیے
کام کرنے کو ہاتھ پاؤں دیے
دن بنایا کمائی کرنے کو
رات دی تو نے نیند بھرنے کو
الطاف حسین حالی نے بچوں کا نفسیاتی مطالعہ کرکے ان کے پسند کے موضوعات پر لکھا تاکہ ان کی دلچسپی برقرار رہے۔ بچوں کو آسان اور شستہ الفاظ میں ان کے پسندیدہ موضوعات پر اشعار کا ملنا کسی نعمت سے کم نہیں۔ اس طرح کے اشعار انہیں آسانی سے زبانی یاد ہو جاتے ہیں جسے وہ مختلف محافل میں ایک دوسرے کو سناتے رہتے ہیں۔ اس سے گلی محلے میں ایک خوبصورت فضا قائم ہوتی ہے ۔
نظم “مرغی اس کے بچے” کے چند اشعار کی سلاست ملاحظہ ہوں:
دن نکلتی ہے ادھر مرغی بھی
فوج بچوں کے لیے نکلے گی
تاکہ وہ صبح کا کھائیں کھانا
رات بھر کے ہیں بے آب ودانہ
ٹکڑے روٹی کے ہوں یا ہو دانہ
ہے غذا ان کی یہی روزانہ
بچوں کے لیے لکھی گئی نظموں میں حالی کی بہترین نظم “پیشے” ہے۔ اس نظم میں بیٹے مختلف پیشوں کے متعلق ماؤں سے گفتگو کرتے ہیں کہ بڑا ہو کر میں فلاں پیشہ اختیار کروں گا۔ اس نظم میں حالی نے بچوں کو محنت کی تلقین سمیت مختلف پیشوں کے متعلق معلومات بھی فراہم کی ہیں تاکہ ابھی سے ان کی ذہن سازی ہوں اور کسی پیشے کو ذہن میں رکھ کر خود کو اس کی جانب مائل کر سکیں۔ اس نظم میں شامل چند اشعار جو مختلف پیشوں کے متعلق ہیں، یہ ہیں:
(کسان )
میں بڑا ہوگا جب تو اماں جان
اپنے مقدور بھر بنوں گا کسان
نہیں محنت سے ہوں میں گھبراتا
خالی پھرنا نہیں مجھے بھاتا
ہل چلاؤں گا بیج بوؤں گا
شوق میں کھاؤں گا نہ سوؤں گا
(مالی)
میری جان اور میری اماں جی
میں بڑا ہوں تو چاہتا ہے جی
گھر میں بیٹھا رہوں نہ یوں خالی
آپ کے باغ کا بنوں مالی
نت نئے پھول میں اگاؤں گا
دیکھنا کیسے گل کھلاؤں گا
(بڑھئی)
جبکہ اماں جوان ہوں گا میں
ایک بڑھئی مستری بنوں گا میں
نہ بڑھئی وہ ہے جن کا نام بڑھئی
جوکہ پھرتے ہیں کہتے” کام بڑھئی”
بلکہ ایسا بنوں گا کاریگر
خود غرض مند آئیں جس کے گھر
ایک اور نظم ہے” بڑوں کا حکم مانو “جو مکمل طور پر پندونصائح پر مبنی ہے ۔اس نظم میں الطاف حسین حالی نے بچوں کو اپنے سے بڑوں کی عزت کرنے اور ان کے احکامات ماننے کا کہا ہے اور یہ بات واضح کی ہے کہ بڑوں کی بات ماننے میں کامیابی ہے اگر گھر میں یا مدرسہ میں والد ،بڑے بھائی یا ستاد سے کسی بھی وجہ پر ڈانٹ پڑے تو اس کا برا نہ ماننا چاہیے چاہے تمہاری کوئی غلطی بھی نہ ہو کیونکہ اس میں تیری بھلائی ہے۔
ماں باپ اور استاد سب ہیں خدا کی رحمت
ہے روک ٹوک ان کی حق میں تمہارے نعمت
کڑوی نصیحتوں میں ان کی بھرا ہے امرت
چاہو اگر بڑائی، کہنا بڑوں کا مانو
وہ کام مت کرو تم جس کام سے وہ روکیں
اس بات سے بچو تم جس بات پر وہ ٹوکیں
جھنک جاؤ دوڑ کر تم گر آگ میں وہ جھونکیں
چاہو اگر بڑائی ،کہنا بڑوں کا مانو
اسی طرح الطاف حسین حالی نے بچوں کی ذہنیت کے مطابق متعدد اشعار کہے ہیں۔ اس مختصر مضمون میں ان تمام اشعار کا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ اہل ذوق کی تسکین کے لیے ان کی بچوں کی شاعری سے متفرق اشعار یہاں پیش کئے جاتے ہیں:
یہ کھاتے ہو جو تم ہر روز روٹی
بتاؤ کیوں کہ ہے تیار ہوتی
کسانوں کا ہے یہ احسان ہم پر
کہ ہوتے ہیں گیہوں ہم کو میسر
سویرے کا وہ نکلا گھر سے
پھرے گا شام کو جب کام پرست
لو وہ دیکھو آرہا ہے ڈاکیہ
منتظر تھا جس کا ہر چھوٹا بڑا
کھول کر سب کر لیے پیکٹ الگ
اور خط بھی رکھ لیے کر کے جدا
سمجھ لو اس سے ماں کی قدر و عظمت
کہ اس کے پاؤں کے نیچے ہے جنت
سنا بھی یہ آواز کیا آ رہی ہے؟
بگل کی برابر صدا آرہی ہے
وہ کسی بات پر مچلتی نہیں
اپنی عادت کبھی بدلتی نہیں
مسدس ہیئت میں لکھی نظم ‘نیک بنو، نیکی پھیلاؤ” کا ایک بند ملاحظہ ہو جس میں شاعر بچوں کو صفائی ،ستھرائی، بھلائی اور نیکی کا درس دیتے ہیں۔
ہوگی تم میں گر ستھرائی
سب سیکھیں گے تم سے صفائی
ہمسائے کی دیکھ بھلائی
چھوڑتے ہیں ہمسائے برائی
قوم کو اچھے کام دکھاؤ
نیک بنو ،نیکی پھیلاؤ
نظم “موچی” سے ایک بند ہے کہ:
چمڑا مول منگاتا ہوں
دھوکے اسے سکھلاتا ہوں
مل کے نرم بناتا ہوں
یوں چمڑے کو کماتا ہوں
میں موچی کہلاتا ہوں
مختصراً الطاف حسین حالی نے بچوں کے لیے شاعری کرنے سے بچوں کے ادب کی اہمیت کو واضح کر دیا ہے۔ انہوں نے دوسرے ادبا کے لیے پیغام چھوڑا کہ بچوں کے لیے ادب کی تخلیق ان کی پرورش کے لیے جزلاینفک ہے۔ افسوس کہ اس زمرے میں کسی نے حالی کی تقلید نہیں کی جس کے سبب اردو ادب کا دامن آج بچوں کے ادب سے خالی ہے۔ اس صنف کی جانب سنجیدگی اور بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔